پاکستان کے موجودہ حالات میں جینا بلاشبہ اتنہائی ہمت و حوصلے کا کام ہے جو ہم مسلسل کیے چلے جارہے ہیں۔ سیاسی انتشار، افراتفری ، بے چینی اور بے یقینی کیساتھ ساتھ مہنگائی ، بیروزگاری ، معیشت کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔ گزشتہ دنوں ملک میں ہونے والے ہنگاموں کے پیش نظر بہت تکلیف دہ مناظر دیکھنے کو ملے۔ نظام کی تبدیلی تو دور ہم میں تو اتنی سکت نہیں کہ اس فرسودہ اور گھسے پٹے نظام کے خلاف مہذب طریقے سے آواز بلند کر سکیں۔ اب یہ نظام چاہے تعلیم کا ہو ، صحت کا ہو یا انصاف کا ہو ہر ادارے میں یہی توڑ پھوڑ ، مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی تباہ کاریوں کے سبب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہمارے ہاں اور بہت سے بحرانوں کے علاوہ ایک اور بحران بھی ہے جو باقی بحرانوں کو جنم دیتا ہے اور وہ ہے تعلیم و تربیت کا بحران اور فقدان۔ مسئلہ ہماری جڑ میں ہے ، شدت پسندی کا بیج گھروں سے بویا جاتا ہے اور پھر ہر گھر سے نکلنے والی کانٹوں بھری شاخیں پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے اندھا دھند تھوڑ پھوڑ کرنے والے ، درختوں اور پودوں کو نوچنے والے، گاڑیوں اور سڑکوں کو آگ لگانے والے، دوسروں کے ذریعہ معاش کو تباہ کرنے والے یہ سب آخر کسی کے بیٹے ، بھائی اور باپ ہیں۔ یہ بھی کسی گھر سے تربیت لے کر نکلے ہیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کردار مثبت کی بجائے منفی کیسے ہو گیا؟ آخر ایسا کیا ہوا انکے ساتھ؟؟ اتنی نفرت، اتنی شدت پسندی اور اتنی آگ کس نے بھر دی انکے اندر ؟ کمی کہاں ہے؟ تعلیم کا فقدان ہے یا تربیت کا ؟ سیاسی جماعتوں کے سیاسی ہتھکنڈوں کے آگے پتلی تماشا کرنے والے یہ سب لوگ آخر کونسے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں ؟ یا گھروں میں والدین کا کردار اور اندازِ تربیت کجی کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے محب وطن سرکاری کارندے ہوں یا دیگر ریاستی اداروں کو چلانے والے لوگ آخر ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنے ہی گھر کے دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور اپنی عوام کی تربیت و دیکھ بھال کرتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں ریاست اور عوام کا تعلق کسی سوتیلی ماں سے بھی بدتر ہوچکا ہے۔ آپس کی سیاسی کشمکش اور دشمنی اس حد تک بڑھ جائے گی کہ وطن نفرت کی آگ میں خود بھی جلے گا اور دوسروں کوبھی جلائے گا ،ایسا تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستانی عوام کو یہ دن دیکھنا پڑیں گے۔ بجائے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا اور انکو حل کرنے کیلیے ساری جماعتیں یک جان ہو جاتیں اور ڈوبتی معیشت و سیاسی بد امنی کے اس طوفان سے باہر نکالتیں ، ابھی بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ میں بعض اوقات یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ آخر یہ کیسے لوگ ہیں؟ پاکستان کو ان حالوں میں پہنچانے والے کیسے لوگ ہیں اور کون سے لوگ ہیں ؟ کیا واقعی ملکی باگ ڈور سنبھالنے والے محب وطن اور باضمیر لوگ ہیں؟ مجھے بچپن میں سنائی گئی وہ کہانی یاد آگئی جس میں ایک لکڑ ہارا اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ لکڑیوں کا گٹھا اگر بندھا ہوا ہو تو اسے توڑنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے اور اگر بکھرا ہو تو بس ایک ایک کر کے توڑتے چلے جائیں اور سب تباہ و برباد ہو جائے گا۔ لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ لکڑیوں کا گٹھا نا صرف تتر بتر ہو چکا ہے بلکہ اسے نفرت و عداوت کی دیمک اندر ہی اندر چاٹ چکی ہے۔ ہمارے مقتدر حلقوں کی موقع پرستی ، نفس پرستی اور طاقت کے گھمنڈ نے انہیں کھوکھلی اور دیمک کھائی لکڑی بنا دیا ہے جو کسی بھی لمحے بھربھری دیوار کی مانند ریزہ ریزہ ہو سکتی ہے۔ محبت، اخوت، اتحاد و ترقی کا وہ بیج جو قائد اعظم نے پچھتر سال پہلے بویا تھا اسے ہم محنت و محبت اور اخلاص کے پانی سے تناور درخت تو نہیں بناسکے لیکن طاقت کے نشے میں جلا ضرور ڈالا ہے۔ بطور استاد و معلم ہونے کے ناتے میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہماری پوری قوم اور سیاسی جماعتوں کو ہنگامی بنیادوں پر تمیز و تہذیب سکھانے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ ابتدائی تعلیمی اداروں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک اخلاق، اقدار و روایات ، کردار سازی کیساتھ ساتھ غصہ اور نفرت پر قابو پانے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جانی چاہیے۔ تمیز و تہذیب سکھانے کے لیے الگ سے مضمون تشکیل کرکے اسے تمام تعلیمی اداروں میں لازمی قرار دیا جائے کہ شاید اس سے آئندہ آنے والی نسلیں انسانیت کے دائرے میں داخل ہو سکیں کیونکہ موجودہ قوم و اسکے کرتا دھرتا تو انسانیت کے دائرے سے خارج ہوچکے۔ وطن عزیز پہ حکمرانی کا نشہ ایسا سر چڑھ کے بول رہا ہے کہ اب جو سامنے آئے گا وہ جادو کی چھڑی سے غائب ہو جائے گا گویا کہ پھر۔۔۔۔ "ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔" بہرحال وقت کی انتہائی اہم ضرورت یہ ہے کہ تمام تتر بتر سیاسی جماعتیں ایک جھنڈے تلے اکھٹی ہوں۔ اگر اس وطن کو بچانا ہے، چلانا ہے اور بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پہ لانا ہے تو اسکا صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے جھنڈوں کو ایک جانب رکھیں اور سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے جمع ہوں۔ یہ وطن کی اور جمہوریت کی بقا کے لیے انتہائی ناگزیر عمل ہے۔ اپنے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ڈنڈوں کو جمع کریں اور ایک گٹھا بنا لیں۔ اگر اپنی اور ملک کی سالمیت عزیز ہے تو خدارا مزید وقت ضائع کیے بغیر صرف ایک جماعت بن کر پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں جیسے پچھتر سال پہلے قائد نے ہمارے لیے بنایا تھا۔